">
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) کے مطابق غزہ بچوں کا "قبرستان" بن گیا ہے، جہاں اسرائیل کی بمباری میں کم از کم 3,450 بچے ہلاک ہو گئے ہیں اور تقریباً 1,000 لاپتہ ہیں جن کے بارے میں خدشہ ہےکہ وہ ملبے تلے دبے ہیں یا مدد نہ ملنے کے باعث زندہ نہیں رہے۔ وہیں غزہ میں 11 لاکھ سے زیادہ بچوں کو بنیادی ضروریات کی شدید قلت اور زندگی بھر رہنے والے ذہنی صدمات کا سامنا ہے۔
یونیسف کے ترجمان جیمز ایلڈر نے جینیوا میں صحافیوں کو بتایا کہ ملبے تلے دبے بچوں کا تصور ہی انتہائی ہولناک ہے جن کے باہر آنے کی امید بہت کم ہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ غزہ میں بدترین مصائب کا سامنا کرنے والے 11 لاکھ بچوں کی خاطر فوری جنگ بندی کی جائے اور انسانی امداد کی متواتر فراہمی کے لئے تمام راستےکھولے جائیں۔ اگر 72 گھنٹے کی جنگ بندی ہو تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ مزید ایک ہزار بچوں کی زندگی بچائی جا سکتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اب خطرہ بموں اور مارٹر گولوں کے حملوں سے کہیں زیادہ ہے۔ غزہ میں پانی کی قلت کے باعث چھوٹے بچوں کی اموات کا اندیشہ بڑھ رہا ہے جہاں صاف پانی کی فراہمی ضروریات کے مقابلے میں صرف پانچ فیصد رہ گئی ہے کیونکہ پانی صاف کرنے کے پلانٹ یا تو ایندھن کی کمی کے باعث چل نہیں پا رہے یا انہیں نقصان پہنچا ہے۔
غزہ میں صحت عامہ کی تباہی کو نظام صحت پر حملوں نے اور بھی بڑھا دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ غزہ میں ہسپتالوں پر اب تک 82 حملے ہو چکے ہیں۔
ان حملوں کے الزامات کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (یو این ایچ سی ایچ آر) کی ترجمان لز تھروسیل نے واضح کیا ہے کہ بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت ہسپتالوں کی عمارتوں کو جنگی کارروائیوں سے تحفظ حاصل ہے۔ ہسپتالوں کو جنگی مقاصد کے لئے ڈھال کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے تو یہ بھی جنگی جرم کے مترادف ہے۔
Copyright ©2024