فلسطین کے ادارہ برائے امور اسیران نے منگل کو بتایا کہ سال 2022 میں اسرائیلی عدالتوں نے 600 سے زائد فلسطینی بچوں کو گھروں میں نظر بند رکھا۔
ادارہ برائے امور اسیران کی رپورٹ کے مطابق، ’اسرائیلی قانون 14 سال سے کم عمر بچوں کو قید کی سزا دینے کی اجازت نہیں دیتا، لیکن قابض اسرائیلی حکام نے اس کے جواب میں مقبوضہ مشرقی یروشلم میں 14 سال سے کم عمر بچوں کو سزا دینے کے لئے گھروں میں نظر بندی کا نفاذ شروع کر دیا ہے۔‘
بتادیں کہ اس نظربندی کے دوران بچوں کو اپنے گھروں سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ ان پر نظر رکھنے کے لئے انہیں ٹریکنگ ڈیوائس پہنایا جاتا ہے، اور انہیں اسکول جانے یا کسی سپروائزر کے بغیر کلینک جانے کی بھی اجازت نہیں ہوتی ہے۔ اس طرح سے بچے تعلیم سمیت متعدد انسانی حقوق سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ساتھ ہی یہ نظربندی بچوں میں مسلسل بے چینی، خوف اور محرومی کا احساس پیدا کرتی ہے۔
فلسطینی بچوں کو اس وقت تک نظربند رکھا جاتا ہے، جب تک ان کے بارے میں جاری تفتیشی فائل بند نہیں ہو جاتی۔ عام طور پر بچوں کی نظر بندی چند دن سے ایک سال تک کے مختلف دورانیوں پر محیط ہو سکتی ہے۔ لیکن اسرائیلی عدالت سے فیصلہ جاری ہونے کے بعد کسی فلسطینی بچے کو دی جانے والی سزا میں یہ نظر بندی شامل نہیں کی جاتی۔
رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ گھر میں نظربندی اکثر بچوں اور ان کے خاندانوں پر پیچیدہ نفسیاتی حالات کا باعث بنتی ہے۔ گھر میں نظر بندی کی ایک اور شکل بچوں کو اپنے خاندانی گھروں سے نکلنے اور انہیں اپنے شہر سے باہر کسی گھر میں رہنے پر مجبور کرتی ہے۔ اکثر والدین اپنے گھر بیچنے پر مجبور ہوتے ہیں یا اپنے بچوں کی رہائی کے لئے شرائط کے نفاذ کی ضمانت دینے کے لئے بڑی رقم عدالتی خزانے میں جمع کرانے کے لئے اپنی بچت کا استعمال کرتے ہیں۔
غور طلب رہے کہ فلسطین کے ادارہ برائے امور اسیران نے 19 نومبر کے اپنے بیان میں بتایا تھا کہ اسرائیلی فورسز نے سال 2015 سے لے کر اب تک 18 سال سے کم عمر کے 9 ہزار 300 سے زائد فلسطینی بچوں کی حراست کا اعلان کیا تھا۔ وہیں اس ادارہ نے سال 2022 میں اسرائیلی فورسز کی طرف سے 750 بچوں کو حراست میں لئے جانے کی طرف بھی توجہ مبذول کروائی ہے۔
Copyright ©2024