ڈاکٹر محمد مکرم بلعاوی
اسرائیلی انتخابات کے آخری دور کے نتائج نے یقیناً امریکی امیدوں و کوششوں کو ایک جھٹکا دیا ہوگا کیونکہ اس نے سابق نگراں وزیر اعظم یائر لاپڈ پر اپنا داؤ لگایا تھا۔ ان نتائج سے یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ ہارے ہوئے گھوڑے پر داؤ لگاتے ہیں۔ مختصراً اسرائیل کی طویل عرصے سے پھیلائی جانے والی شبیہ کو برقرار رکھنے کے علاوہ لاپڈ اور بنجمن نیتن یاہو کے درمیان سیاسی نتائج کے حوالے سے زیادہ فرق نہیں ہے۔
اس کے باوجود نیتن یاہو جو "اسرائیل کے بادشاہ” کے طور پر کام کرتے ہیں (پہلے ہی چھ بار وزیر اعظم رہ چکے ہیں)، ان کے تکبر اور دوسروں کے معاملات میں مداخلت کی وجہ سے ان کے تئیں امریکہ اور دیگر جگہوں پر بہت نفرت ہے۔ وہ ہمیشہ ہیرا پھیری کرنے والے سیلز مین کا کردار ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو آپ سے پیسے لینا چاہتا ہے لیکن بدلے میں آپ کو کچھ نہیں دیتا۔ وہ وہی ہے جس نے عرب نعرے "امن کے لئے سرزمین” کو "امن کے لئے امن” میں بدل دیا، یہ اچھی طرح سے جانتے ہوئے کہ اسے دھمکی دینے والے عرب درجنوں F-35 طیاروں اور اسرائیلی ہائی ٹیک ہتھیاروں کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے، جس میں امریکہ اور یورپ کی طرف سے اسرائیل کو دیے گئے ایٹم بم بھی شامل ہیں۔
چند ماہ قبل جب لیپڈ کی حکومت نے مشرقی بحیرہ روم میں گیس کے ذخائر کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے امریکا کے ذریعے سمندری سرحدوں پر لبنان کے ساتھ ایک باہمی معاہدہ کیا تو نیتن یاہو نے تبصرہ کیا کہ اگر وہ ہوتے تو بدلے میں کچھ دیے بغیر سب کچھ لے لیتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کے لئے یہ معاہدہ حزب اللہ کی وفاداری کی نمائندگی کرتا ہے، اور اگر وہ منتخب ہو جاتے ہیں تو وہ اس معاہدے کو “بے اثر” کر دیں گے، جیسا کہ انہوں نے اوسلو معاہدے کے ساتھ کیا تھا۔
اس بار نیتن یاہو کے "ٹیلنٹ” کا رخ فلسطینیوں اور عربوں کی طرف نہیں ہے اور نیتن یاہو نے اسرائیلی معیارات کے مطابق تصدیق شدہ مجرموں سے مل کر ایک گینگ سے کم حکومت نہیں بنائی ہے۔ کئی لوگ ان کی حکومت کو اسرائیل کی "تاریخ” میں انتہائی دائیں بازو کی حکومت قرار دیتے ہیں۔
ایک پیشین گوئی کی طرح اسرائیل کے سابق وزیر اعظم لیپڈ نے اپنی الوداعی تقریر میں نیتن یاہو اور ان کی ٹیم کو یہ کہہ کر مخاطب کیا کہ انہوں نے اسرائیل کو اچھی حالت میں ان کے حوالے کیا ہے اور امید ہے کہ وہ اسے اسی حالت میں واپس کر سکنے کے لائق ہوں گے جب وہ اگلا الیکشن جیتے گے۔
اسرائیل میں بہت سے لوگ نیتن یاہو اور ان کی حکومت سے انتہائی پریشان اور فکرمند ہیں۔ کچھ نے سڑکوں پر احتجاج اور کچھ نے سپریم کورٹ کا سہارا لیا۔ یہاں تک کہ کچھ لوگوں نے نیتن یاہو پر یہ الزام لگاتے ہوئے ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا کہ وہ اسرائیل کو ایک "اچھوت ریاست” میں بدلنے اور عوامی حمایت کھو کر حکومت کی قانونی حیثیت کو تباہ کرنے کا کام کررہے ہیں۔
دی ٹائمز آف اسرائیل نے یہ نوٹس کیا کہ جب اسرائیل میں امریکی سفیر ٹام نائیڈز نے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو اور ان کی نئی حکومت کو مبارکباد دیتے ہوئے ٹویٹ کیا، تو انہوں نے یروشلم اور واشنگٹن کے درمیان مضبوط تعلقات کی تعریف کی، لیکن اس پر زور نہیں دیا کہ یہ مشترکہ اقدار کی عادت ہے۔ اس پیغام میں اشارہ دیا گیا کہ اسرائیل نے پہلے ہی امریکی حمایت کھونا شروع کر دی ہے اور وہ امریکی ماڈل اور اقدار سے بہت دور چلا گیا ہے۔
نیتن یاہو منظم طریقے سے نظریاتی سطح پر، عدالتی سطح پر، پارلیمانی سطح پر، حکمرانی کی سطح پر، فوجی سطح پر، سلامتی کی سطح پر، امور خارجہ کی سطح پر، اقتصادی سطح پر اور سماجی سطح پر اسرائیل کو کمزور کر رہے ہیں۔
کیا نیتن یاہو ایسا اس لئے کر رہے ہیں کہ یہ اتحاد بنانے کا واحد طریقہ ہے یا اس لئے کہ انھوں نے ہمیشہ سخت گیر اور انتہا پسندانہ خیالات کو جنم دیا ہے؟ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ وہ پروفیسر بنزیون نیتن یاہو (بنزیون میلیکووسکی) کے بیٹے ہیں، جو ملیشا رہنما (militia leader) اور دہشت گرد زیف جبوتنسکی (ولادیمیر یوگینیویچ زابوتنسکی) کے پرسنل سیکرٹری رہے؟
اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے، نیتن یاہو کو قانون میں ترمیم کرنا پڑا، جو کہ قانون کی ریاست کے تصور کو ایک سنگین دھچکا ہے جسے اس نے مارکیٹ کرنے کی کوشش کی۔
اسرائیل سے نفرت کرنے والوں کو آرام کرنا چاہیے اور یہ منظر دیکھ کر لطف اندوز ہونا چاہیے کیونکہ نیتن یاہو نے اسرائیل کے مندر کے ہر ستون کو تباہ کر دیا ہے۔ یہ وہی شخص ہے جس نے چند ماہ قبل دعویٰ کیا تھا کہ وہ اندرونی اور بیرونی دشمنوں کے خلاف اسرائیل کی واحد ضمانت ہے۔ وہی شخص جو – غالباً – اندرونی اختلافات کو ہوا دے کر اور بیرونی حمایت کھو کر اسرائیل کو اپنے انجام تک پہنچانے والا ہے، جیسا کہ بہت سے اسرائیلی رہنما خبردار کر رہے ہیں۔
Copyright ©2024